سیاسی رہ نماؤں کی جانب سے سلیمانی کی مداخلت کی مذمت
تہران29مئی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)ایران کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم القدس ملیشیا کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی عراقی حکومت کی درخواست پر بغداد پہنچ چکے ہیں جہاں فلوجہ میں دولت اسلامی داعش کے جاری آپریشن میں فوج اور شیعہ ملیشیا حشد الشبعی کی عسکری رہ نمائی کر رہے ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل سلیمانی خود نہیں گئے بلکہ انہیں بغداد حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر بلایا گیا ہے۔خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق مسٹر انصاری نے سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کے اس بیان کا جواب دیا ہے جس میں الجبیر نے روس کے آرٹی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا گیا تھا کہ ان کا ملک جنرل سلیمانی کی بغداد میں موجودگی کو تشویش کی نظروں سے دیکھتا ہے۔حسین انصاری نے اپنے بیان میں سعودی عرب پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ایرانی فوج کے سینیر افسران اور عسکری مشیر جو جنرل سلیمانی کی قیادت میں بغداد پہنچے ہیں تو وہ عراق کی حکومت کی درخواست پر گئے ہیں۔ ان کے بغداد جانے کا مقصد عراقی حکومت کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ میں معاونت اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی سازشوں کو ناکام بنانے میں معاونت کرنا ہے۔خیال رہے کہ قبل ازیں سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیرنے ایک بیان میں جنرل سلیمانی کی عراق میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسا شخص جس کا نام دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں شامل ہو کا آزادانہ عراق کا سفر کرنا تشویش کا باعث ہے۔
عادل الجبیر نے کہا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی کارروائیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ وہ عراق اور شام میں وہاں کی عوام کے خلاف لڑ رہے ہیں، تخریب کاری کے مرتکب ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں بدامنی کو ہوا دیتے ہیں۔ سعودی عرب نے جنرل سلیمانی کی عراق میں موجودگی کو مسترد کر دیا ہے۔سعودی وزیرخارجہ اس بات کی تردید کہ جنرل سلیمانی کو بغداد امریکا اور ایران دونوں کی باہمی رضامندی سے بھجوایا گیا ہے تاہم اگر جنرل سلیمانی کی آمد بغداد اور تہران کے درمیان باہمی تعاون کا نتیجہ ہے تو یہ سعودی عرب کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ ایران ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی راہ پر چلنے کے بجائے تعلقات بگاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے لیے عرب ممالک میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ تہران عرب ممالک میں فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کو سپورٹ کررہا ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے گروپوں کی مدد سے پورے خطے میں فرقہ واریت کی آگ مزید تیزی سے پھیل رہی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر جنرل سلیمانی کی کچھ تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں انہیں عراقی فوج اور نجی شیعہ ملیشیا حشد الشعبی کے رہ نماؤں کے ساتھ آپریشن کنٹرول روم میں دیکھا گیا ہے۔ جنرل سلیمانی ایک ایسے وقت میں بغداد پہنچے ہیں جب عراقی حکومت سنی اکثریتی علاقے فلوجہ میں شدت پسند گروپ دولت اسلامی داعش کے خلاف ایک آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس آپریشن میں عراقی فوج کو اہل تشیع کی متنازع عسکری تنظیم حشدالشعبی کے جنگجوؤں کی بھی بھرپور معاونت حاصل ہے،جس پرعلاقائی اورعالمی سطح پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
عراقی حکومت کی درخواست پر جنرل سلیمانی اور دوسرے ایرانی فوجی افسران کو بغداد بلائے جانے پر وہاں کے سیاسی رہ نماؤں نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ الانبار صوبے سے تعلق رکھنے والے تین ارکان اسمبلی نے خبر رساں اداریرائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی کی بغداد آمد فرقہ واریت کو ہوا دینے، شکوک شبہات کو مزید بڑھانے اور داعش کی آڑ میں اہل سنت مسلک کے لوگوں کے قتل عام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔واضح رہے کہ فلوجہ شہر بغداد کے مغرب میں 50کلو میٹر دور اہم ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں بھی عسکری گروپوں کا مرکز رہا ہے۔ مگر سنہ 2014ء میں اس شہر پر دولت اسلامی داعش کے شدت پسندوں نے قبضہ کر لیا تھا۔